ماں کی ممتا سے ہر بیماری کا علاج Mother's love cures every disease
ماں کی ممتا سے ہر بیماری کا علاج
جب آپ کو کبھی کوئی مشکلات یا کوئی بیماری میں مبتلا ہو جائے تو کسی حکیم یا ڈاکٹر کے پاس جانے کی بجائے سیدھا اپنی مرکزی ممتا شفا خانہ برائے توجہ اور محبت میں علاج کے لیۓ تشریف لے جائے
ذندگی کے مشکلات میں گردشوں کے دھوپ میں
جب کوئی سایہ نہیں ملے تو یاد آتی ھے ماں۔
اشفاق احمد جو ایک دور اندیش اشخاص میں سے ایک شخص ہے فرماتے ہیں کہ آدمی عورت سے محبت کرتا ہے اور عورت اپنی اولاد سے محبت کرتی ہے, اس بات کی مکمل سمجھ مجھے اس رات آئی, یہ گزشتہ صدی کے سال کے اختیتام میں موسمِ بہار کی ایک رات تھی. میری شادی ہوئے تقریباً دوسال ہو گئے تھے۔ اور بڑا بیٹا قریب ایک سال کا ہوا تھا
اس رات کمرے میں ہم صرف تین لوگ تھے, میں, میرا بیٹا اور اس کی ماں ! ان میں سے دو لوگوں کو بخار تھا, مجھے کوئی ایک سو تین(۱۰۳) درجہ اور میرے بیٹے کو ایک سو (۱۰۰) درجہ. میری حالت میرے بیٹے سے کہیں زیادہ خراب تھی۔ تاہم میں نے یہ محسوس کیا کہ جیسے کمرے میں صرف دو ہی لوگ ہیں, میرا بیٹا اور اسکی ماں.
وہاںمجھے بری طرح نظر انداز کیے جانے کے احساس نے مجھ سے ایسے بیٹھنا برداشت نہیں ہوا لیکن میں اپنے دل اور دماغ سے سوچھنے پر عقدہ یہی کھلا کہ عورت نام ہی اس ہستی کا کہ جب اسکو ممتا دے کر اولاد دی جاتی ہے تو اس کو اپنی اولادکے سوا کچھ دکھائی نہیں دیتا.
یہاں تک کہ اپنا شوہر بھی اور خاص طو رپر جب اسکی اولاد کسی مشکل میں ہو.تو اس نتیجہ کے ساتھ ہی ایک اور نتیجہ بھی نکالا اور وہ یہ کہ
*اگر میرے بیٹے کے درد کا درمان اسکی کی ماں کی آغوش ہے تو یقینا میرا علاج میری ماں کی آغوش ہو گی.*
*اس خیال کا آنا ہی تھا کہ میں بستر سے فوراً اٹھا اور ماں جی کے کمرہ کی طرف چل پڑا . اس وقت آدھی رات ہو چکی تھی لیکن جیسے ہی میں نے ماں کے کمرے کا دروازہ کھولا تو وہ فوراً اٹھ کر بیٹھ گئیں جیسے میرا ہی انتظار کر رہی ہوں .
پھر دیکھتے ہی ماں سمجھ گئی تھی, بالکل ایک سال کے بچے کی طرح مجھے گود میں لے لیا۔
اور توجہ اور محبت کی اتنی ہیوی ڈوز سے میری آغوش تھراپی کی کہ میں صبح تک بالکل صحتمند ہو گیا.
پھر تو جیسے ہی میں نے ایک اصول بنا لیا کہ جب کبھی کسی چھوٹے بڑے مسئلے یا کسی بیماری میں مبتلا ہوجائے تو کسی حکیم یا ڈاکٹر سے رجو کرنے کی بجائے سیدھا مرکزی ممتا شفا خانہ برائے توجہ اور علاج میں پہنچ جائے۔
* وہاں پہنچ کر مُجھے کچھ بھی بولنے کی ضرورت نہیں پڑی۔ بس میری شکل دیکھ کر ہی مسئلہ کی سنگینی کا اندازہ ہو جاتی ہے.
میڈیکل ایمرجنسی کو ڈیکلئر کر دی جاتی.
مجھے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ (ماں کہ ممتا ) کے ہی بستر(آغوش) پر لٹا دیا جاتا اور انکا ہی کمبل اوڑھا دیا جاتا, کسی کو یخنی کا حکم ہوتا تو کسی کو دودھ لانے کی درخواست, خاندانی معالج کی ہنگامی صورت میں طلبی ہوتی, الغرض توجہ اور محبت کی اسی ہیوی ڈوز سے مجھے آغوش تھراپی کی گئی اور میں بیماری کی نوعیت کے حساب سے کبھی چند گھنٹوں میں روبہ صحتمند ہو کر ڈسچارج کر دیی گئی.
یہ سلسلہ تقریباً چار ماہ قبل تک جاری رہا۔
وہ دسمبر کے 10 تاریخ کی ایک انتہائی سردی والی شام تھی , جب میں کام سے گھر واپس جارہے تھے تو مجھے لگا کہ میں اب بلکل صحتمند نہیں ہوا , پھر میں نے آغوش تھراپی کروانے کا فیصلہ کیا اور گھر جانے کی بجائے (ماں کی ممتا ) شفاء خانہ میں حاضر ہو گیا, پر وہاں پوچھنے پر اور ہی منظر دیکھا . ماں جی کی خود اپنی حالت کافی ناگزیر تھی پچھلے کئی دنوں سے چل رہیے پھیپھڑوں کے بیماری کے باعث بخار اور درد کا دور چل رہا تھا ۔
مجھے اپنی درد خود کو بھول کر انکی تیمارداری میں لگ گیا, مختلف ادویات دے دیا, خوراک کے معروف ٹوٹکے آزمالیۓ.
مٹھی چاپی کی, مختصراً کوئی دو گھنٹے کی بات چیت کے بعد انکی طبیعت تھوری سنبھلی اور وہ سو گئی.
میں اٹھ کر گھر چلا آیا .
ابھی گھر پہنچے آدھ گھنٹہ ہی بمشکل گذرا ہوگا کہ اتنے میں چھوٹے بھائی کا فون آیا, سو طرح کے واہمے خیالات ایک پل میں آکر گزر گئے. ایکدم سے فون اٹھایا اور چھوٹتے ہی پوچھا, بھائی امی کی تبیعت کیسی ہے!, بھائی بولا سب خیریت ہے اور بولا
*در اصل والدہ پوچھ رہی ہیں کہ آپکی طبیعت ناساز تھی اب کیسی ہے؟؟……*
... ! اوہ میرے خدایا
اسی وقت میرے ذہن میں ماں کی تعریف مکمل ہو گئی تھی۔
کہ ماں وہ ہستی ہے جو اپنے اولاد کو تکلیف میں دیکھ کر اپنا دکھ,اپنا آپ بھی بھول جاتی ہے .
لہزاَ آغوش تھراپی براۓ شفاء خانہ جس کسی کی ابھی تک بن نہیں ہوچکی تو اللہ کا لاگ لاگ شکر ادا کیجۓ اور ان کے پاس جا کر بیٹھ جائے جہاں جیسا سکون آپ کو دنیا کے کسی شفاء خانے میں نہیں مل سکے گا۔۔
اللہ تعالٰی ہر کسی کو اپنی مشکلات (ماں کی ممتا) کو آغوش سے تھراپی کرنے کی توفیق عطا کرے آمیں۔ .
Comments
Post a Comment